یہ تحریر مولو مصلّی کے شب و روز سے عبارت ہے۔ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے۔ ایک بار کچھ پولیس افسران نے ایک گھر کی تلاشی لینا چاہی تو جواب ملا۔ ’’خبردار! یہ چودھریوں کا گھر ہے۔ کسی مولو مصلّی کا نہیں‘‘۔ اس پر پولیس افسران نے ہاتھ جوڑے، معافی مانگی اور یہ کہہ کر واپس لوٹ گئے کہ ’’ہمیں علم نہ تھا کہ یہ چودھریوں کا گھر ہے۔ مولو مصلّی کا گھر ہوتا تو کب کے داخل ہو گئے ہوتے‘‘ مولو مصلّی جس کا یہاں ذکر ہوا کون بدنصیب ہے؟ جناب ڈاکٹر امجد ثاقب اس سوال کا جواب اپنی تازہ کتاب ’’مولو مصلّی‘‘ میں یوں دیتے ہیں۔ ’’چودھری اور مولو مصلّی دو افراد یا دو گھرانوں کا نام نہیں بلکہ دو زندہ حقیقتیں ہیں۔ چودھری معاشرے کے طبقہ بالا کی نمائندگی کرتا ہے اور مولو ان کروڑوں افراد کا نام ہے جو چودھریوں، ملکوں، خانوں اور سرداروں کی چکی میں پس رہے ہیں۔ گزشتہ پندرہ بیس برس سے ڈاکٹر امجد ثاقب اخوت کے نام سے جس طرح معاشرے کے غربت و محرومی اور ظلم و ستم کے مارے ہوئے لوگوں کو سینے سے لگا کر ان کا دکھ درد بانٹ رہے ہیں اور لب گور پہنچے ہوئے لوگوں کو مایوسیوں کی تاریکیوں سے نکال کر دوبارہ رونقِ حیات کا حصہ بنا رہے ہیں وہ نہایت ہی قابلِ قدر ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اب تک 50لاکھ پاکستانیوں کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے لیے اربوں روپے اخوت پروگرام کے تحت قرضِ حسنہ کے طور پر دے چکے ہیں۔ بلا سود قرض کا یہ پروگرام ایک معجزے سے کم نہیں۔ قرضِ حسنہ کی واپسی کا ریٹ ننانوے فیصد سے اوپر ہے۔ بہت سے لوگ نہ صرف قرضہ واپس کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو قرضہ دینے والے بھی بن جاتے ہیں۔ اس معجزے کی کہانی اس کے خالق کی زبانی سننے کے لیے ڈاکٹر صاحب کو آکسفورڈ، کیمبرج، ہاورڈ اور دیگر کئی یونیورسٹیوں میں دعوت دی جاتی ہے۔ ہمارے افسانہ نگاروں نے تو گزشتہ صدی کے دوران مظلوم و بے سہارا لوگوں کی فرضی کہانیاں لکھی تھیں مگر ڈاکٹر امجد ثاقب نے جو کہانیاں ’’مولو مصلّی‘‘ نامی کتاب میں لکھی ہیں وہ فرضی نہیں حقیقی ہیں۔ وہ ان کہانیوں کے کرداروں سے خود ملے ہیں۔ ان کہانیوں میں مولو مصلّی، دوست محمد موچی، ایک طوائف، معذور بچوں، تھر کے ریگستانوں، سود کی دلدل میں دھنسے ہوئے بے بس لوگوں، زندہ درگور انسانوں اور بے سہارا خواجہ سرائوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ اللہ نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو ایک بہت بڑی دولت عطا کی ہے جو کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ وہ ہے شدت احساس کی دولت۔ مجھ کو رشک کی شدت نے جلا رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب دوست محمد موچی کا قصہ درد یوں سناتے ہیں۔ سرگودھا کے قصبہ شاہ کوٹ سے چند کلومیٹر دور دریائے جہلم کے نزدیک بکھربار نامی قصبے کا مکین دوست محمد کہتا ہے۔’’دریا کی منہ زور لہریں ہر سال ہمیں تباہ کرنے آتی ہیں۔ لیکن ان لہروں سے کہیں زیادہ منہ زور مہر اور ٹوانے ہیں۔ دریا لوٹ جاتا ہے لیکن جاگیرداروں سے ہمیں کبھی نجات نہیں ملتی۔ بکھر بار کے لوگ دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ لڑکیوں کا یہاں کوئی سکول نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک خواجہ سرا رقاصہ کی نہایت درد ناک کہانی اس کتاب میں قارئین کو سنائی ہے۔ اسی تصنیف میں ڈاکٹر صاحب نے ایک طوائف کا قصہ درد بھی لکھا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ایک ادھیڑ عمر خواجہ سرا کی خستہ حالی کی کہانی اس کی زبانی سناتے ہیں۔ ’’میں نے آج تک بنیان نہیں خریدی، آج تک جراب نہیں پہنی، بدن پر سردی گرمی میں صرف دو کپڑے ہیں، پھٹ جاتے ہیں تو اور مانگ لیتا ہوں۔ مجھے شوگر ہے، مجھے ہیپاٹائٹس ہے، مجھے بلڈ پریشر ہے، ہم ہر وقت زمانے کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، ہمیں کوئی دوا دارو میسر نہیں۔ کھسرے، ہیجڑے، زنخے، زناٹے،خواجہ سرا، ہمارے کئی نام ہیں لیکن کہانی ایک ہی ہے کہ ہمیں کوئی انسان سمجھنے کو تیار نہیں‘‘ ڈاکٹر امجدثاقب نے کتاب میں ایک ایسی بات لکھی ہے کہ جسے پڑھ کر عقیدت سے میری آنکھیںجھک بھی گئیں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں۔ ’’میں نے جب ایک بار ایک خواجہ سرا کے گرد آلود پائوں گود میں رکھ کر اس کا زخم دھونے کی کوشش کی تو مجھے لگا میں نے سب سے بڑی نیکی کی ہے‘‘ خواجہ سرا کے پائوں کا زخم کون دھو رہا ہے جو ڈی ایم جی گروپ کا سابق بیورو کریٹ ہے اور کئی اداروں کا ڈائریکٹر اور بین الاقوامی شہرت کا حامل سماجی رہنما۔ قارئین! کوئی شخص اس وقت تک ایسا کارِ خیر انجام نہیں دے سکتا جب تک کہ اندر سے اس کا سرکش نفس اپنے مولا کے سامنے سرنڈر نہ کر چکا ہو اور جب تک کہ اسے خدمتِ خلق کا سچا ذوق و شوق عطا نہ کر دیا گیا ہو۔ ڈاکٹر صاحب صرف یہ غمناک کہانیاں سناتے ہی نہیں بلکہ غم کے ماروں کے دکھ درد کا مداوا بھی کرتے ہیں۔ ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طبقاتی معاشرے میں مولو مصلّی اور چودھریوں کے درمیان ناقابل عبور خلیج حائل ہو، وہاں دراصل چودھری ان سے اوپر والے طبقے کی نگاہِ میں مولو مصلّی ہوتے ہیں۔ مرحوم الطاف گوہر نے ایک بار لکھا تھا کہ رعب اور دبدبے والے گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان نے یہ واقعہ سنایا کہ ’’ہم قیامِ پاکستان سے پہلے سرگودھا کے آس پاس کے اضلاع کے تمام جاگیردار اور زمیندار کرسمس کے روز صبح سویرے زرق برق شیروانیاں پہن کر انگریزی ڈی سی کو کرسمس کے روز مبارکباد دینے گئے جب کوئی دن کے گیارہ بج گئے تو اندر سے چپڑاسی باہر آیا اور اس نے صرف اتنا کہا ’’صاحب بولتا ہے آپ کا مبارکباد مل گیا‘‘ یہ سن کر ہم سب اٹھے اور ایک دوسرے سے گلے ملے اور خوشی کا اظہار کرنے لگے کہ صاحب نے ہماری مبارکباد قبول کر لی‘‘۔ یوں انگریز ڈی سی نے جاگیرداروں، نوابوں اور زمینداروں کو بتا دیا کہ ہمارے نزدیک تم سب مولو مصلّی ہی ہو۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے نام میں اب اللہ نے وہ کشش رکھ دی ہے کہ وہ جس پراجیکٹ کے لیے اپیل کرتے ہیں اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک لوگ تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ یہ منصوبہ اخوت یونیورسٹی کا ہو یا معذور بچوں کے لیے ویل چیئرز کی فراہمی کا ہو یا لوگوں کو سود کی دلدل سے نکالنے کا ہو۔ اللہ جب اپنے بندے پر مہربان ہوتا ہے تو اس کے مال و جان میں ہی نہیں۔ اس کے وقت میں بڑی برکت عطا کر دیتا ہے۔ ہمارے پاس بھی 24گھنٹے ہیں مگر جس طرح ڈاکٹر صاحب کئی اداروں کی سربراہی کر رہے ہیں، کئی کام انجام دے رہے ہیں اور کئی لوگوں سے براہِ راست ملاقات کر رہے ہیں یہ توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ جناب عمران خان نے ریاست مدینہ کے قیام کی بات کر کے لوگوں کے دل موہ لیے ہیں مگر خان صاحب کو علم ہونا چاہیے کہ ’’مواخات‘‘ کے بغیر ریاست مدینہ کا کوئی تصور نہیں۔ مواخات اور اخوت کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے خان صاحب ڈاکٹر امجد ثاقب سے ملاقات کریں۔ اللہ نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو وہ کام کرنے کی توفیق دی ہے جو ایک فرد کا نہیں پوری ریاست کا کام ہے۔